سات مسجدیں

  • موجود موجود
  • خارجی خارجی

سات مسجدیں کا شمار ان مقامات میں ہوتا ہے جن کی زیارت کا اہتمام مدینہ آنے والے کرتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی مساجد کا ایک مجموعہ ہےجس کو خندق کی جگہ پر غزوہ خندق کی یاد تازہ رکھنے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔

مختصر تعارف:

یہ مساجد جبل سلع کے دامن میں واقع ہیں جہاں غزوہ خندق ہوا تھا اور مسلمانوں نے مدینہ کا بہادری سے دفاع کیا تھا۔ اس محلے کو آج حی الفتح کہتے ہیں، اس کے علاوہ یہ علاقہ عوام میں سیح، خندق، جبل سلع کے نام سے بھی معروف ہے۔

تاریخ مساجد:

ان مساجد کو غزوہ خندق میں بعض صحابہ کی جوانمردی اور بہادری کی یادگار کے طور عہد نبوی اور عہد صحابہ کے بعد تعمیر کیا گیا۔ ان کے نام بھی ان صحابہ کرام کے نام پر رکھے گئے۔ یہ مساجد تاریخ اسلامی کے مختلف أدوار میں تعمیر کی گئیں، پھر آنے والے أدوار میں ان کی تجدید کے کام کا بھی ہوتا رہا۔ سعودی حکومت نے ‏ موجودہ دور میں ان کی تعمیر نو کا خاص اہتمام کیا۔

تعداد مساجد:

یہ مساجد سیاحوں (tourists) کے ہاں مساجد سبعہ کے نام سے معروف ہے مگر یہ اصطلاح کسی قدر نئی ہے۔ چودھویں صدی ہجری سے پہلے ان کو مساجد الفتح کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد سات کے بجائے چھے تھی مگر پھر مسجد قبلتین کو بھی ان مساجد سے قربت کی بنا پر ان میں شمار کیا جانے لگا۔

بعض لوگ جبل ذباب پر پائی جانے والی مسجد ذباب کو مسجد قبلتین کی جگہ ساتویں مسجد قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد ذباب مسجد قبلتین کے مقابلے میں ان مساجد کے زیادہ قریب ہے اور اس کا غزوہ أحزاب کے واقعات سے بھی براہ راست تعلق ہے۔ بعض لوگ مسجد بنی حرام کو مساجد سبعہ کی ساتویں مسجد قرار دیتے ہیں۔

یہ معاملہ جیسا بھی تھا اس میں تو کوئی شک نہیں کہ غزوہ أحزاب اسی علاقے میں پیش آیا تھا اور لوگ اس مقام کی زیارت ان واقعات کی یاد دہانی کے لیے کرتے ہیں جو غزوہ أحزاب کے موقع پر یہاں پیش آئے، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے أصحاب نے اپنی دین پر ثابت قدمی اور رب سے حسن ظن کو ثابت کیا۔ اس علاقے کا ایک شرف یہ بھی ہے کہ یہ اسلام کے جزیرہ عرب کی حدود سے باہر نتشار سے متعلق نبوی بشارتوں کا بھی گواہ ہے۔

سات مسجدیںہمارے دور میں:

آچ ان مساجد میں سے صرف پانچ مساجد باقی ہیں۔ مسجد أبو بکر گرچکی ہے اور اس کے آثار بھی اب باقی نہیں رہے۔

باقی مساجد مندرجہ ذیل ہیں:

مسجد الفتح:

کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد اس مقام پر تعمیر کی گئی ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی نصرت کے لیے اپنے رب سے دعا مانگی۔ یہ مقام جبل سلع کے مغربی جانب ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ روایت کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد فتح کے مقام پر تین دن یعنی پیر، منگل اور بدھ دعا فرمائی ، ‏ آپ کی دعا بدھ کے روز دو نمازوں کے درمیان قبول ہوی اور بشارت کا اثر آپ کے چہرے مبارک پر ظاہر ہوا۔

موجودہ عمارت بیسالٹ اور چونے کے پتھر سے بنی ہوی ہے۔ یہ عمارت ایک ایوان پر مشتمل ہے جس کی چوڑائی 8.5 میٹر، لمبائی تقریباً 3.50 میٹر، اور ا اونچائی تقریباً 4.50 میٹر ہے۔ قبلہ کی دیوار کے وسط میں پر ایک چھوٹا سا محراب بنایا گیا تھا۔ ایوان کی entrance پر چھوٹا صحن ہے جو 8.50 میٹر چوڑا اور 6.50 میٹر لمبا ہے۔ یہ سات مساجد میں سب سے بڑی ہے۔

مسجد سلمان فارسی رضی اللہ عنہ:

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کے دفاع کے لیے خندق کھودنے کا مشورہ دیا۔

یہ مسجد ایک جانب سے کھلے ہال پر مشتمل ہے۔ اس کی دیواریں اور چھت بزلٹ کے پتھروں سے تعمیر شدہ ہے۔ اس کی لمبائی تقریبا 7 میٹر اور چوڑائی تقریبا 8 میٹر ہے

مسجد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ:

یہ مسجد ایک اونچی پہاڑی پر ایک ہال کی شکل میں قائم ہے جس کی لمبائی ساڑھے آٹھ میٹر اور چوڑائی ساڑھے چھے میٹر ہے۔

مسجد عمر الفاروق رضی اللہ عنہ:

یہ مسجد بھی مسجد سلمان فارسی کی طرح ایک جانب سے کھلے ہال اور صحن پر مشتمل ہے۔ یہ مسجد زمین سے آٹھ درجوں کی بلندی پر واقع ہے اور اس کا طرز تعمیر مسجد الفتح جیسا ہے۔

مسجد سعد بن معاذ کو آج کل مسجد فاطمہ الزہراء کہتے ہیں۔:

یہ مسجد ایک (rectangular) میدان پر مشتمل ہے جس کے اوپر چھت نہیں۔ اس کی لمبائی 3.35 میٹر اور چوڑائی 6.2 میٹر ہے۔ اس کے اندر کی پیمائش 2.21 مربع میٹر ہے۔

1428 ہجری میں ان مساجد کے پڑوس میں ایک بڑی مسجد تعمیر کی گئی جس میں مقامی لوگ اور زائرین نماز پڑھ سکیں۔ اس کی پیمائش 4237 مربع میٹر ہے اور اس میں 2000 مرد اور 500 خواتین نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد کے صحن میں بھی 500 نمازیوں کی گنجائش ہے۔

سات مسجدیںکا وزٹ:

یہ مساجد مدینہ منورہ کے شمال میں واقع ہے اور مسجد نبوی سے دو کیلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان کی زیارت سارا دن کی جاسکتی ہے

جغرافیائی محل وقوع
گھومنا 360